ڈاکٹر برہان احمد فاروقی

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search
از سر نو

اس مضمون کو انسائیکلوپیڈیا طرز پر از سر نو منظم انداز میں لکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ اس میں ترمیم کر کے اسے مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔

Burhan-ahmad.JPG

ڈاکٹر برہان احمد فاروقی 1906 ء کو ہندوستان کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے- آپ نے ابتدائی تعلیم ملتان سے حاصل کی اور اسکے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی جہاں آپ فلسفے اور ما بعدالطیبات کے معروف فلاسفر ڈاکٹر سید ظفر الحسن کے زیرِ تعلیم رہے۔ آپ کے شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سے بھی بہت قریبی مراسم تھے اور ڈاکٹر محمد اقبال ہی کی درخوست پر آپ نے پی ایچ ڈی کا مقالہ حضرت مجددِ الف ثانی کے نظریہ توحید پر لکھا جو بعد میں “حضرت مجدد الف ثانی کا نظر یہ توحید” کے عنوان سے ۱۹۴۰ء کو ایک کتابی صورت میں شائع ہوا- آپ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں کافی عرصہ درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کے کہنے پر پاکستان تشریف لے آئے او ر یہاں مختلف تعلیمی اداروں میں تدریس کی ذمہ داری سر انجام دیتے رہے- آپ نے جن نامور علمی اداروں میں تدریسی ذمہ داری ادا کی ان میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، زمیندار کالج گجرات، اسلامیہ کالج جالندھر، ایم اے او کالج لاہور، اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور اور پنجاب یونیورسٹی جیسے ادارے شامل ہیں-

آپ کے چند مشہور طلباء میں معروف نعت گو شاعر‘ بیوروکریٹ‘ ماہر لسانیات اور دانشور عبدالعزیز خالد، ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی اور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جیسی شخصیات شامل ہیں- آپ نے بہت سی تحقیقی نوعیت کی کتب بھی تصنیف کیں جن میں چند مشہور کتابیں منہاج القرآن، قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل، حضرت مجدد الف ثانی کا نظر یہ توحید ، مسلمانوں کا سیاسی نصب العین وغیرہ شامل ہیں۔

آپ نے ۹۱ سال کی عمر میں ۱۴ جولائی ۱۹۹۵ ء کو لاہور میں وصال فرمایا- آپ کے وصال کے وقت شیخ الاسلام یورپ کے دعوتی و تنظیمی دورے پر تھے- شیخ الاسلام نے آپ کے سانحہ ارتحال پر یورپ سے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا کہ “ استادِ مکرم ڈاکٹر برہان احمد فاروقی مرحوم اس عہد کی وہ منفرد شخصیت تھیں جو صدیوں کے بعد پیدا ہو ا کرتی ہیں۔”

شیخ الاسلام اپنے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر برہان احمد فاروقی علمی استفادہ پر گفتگو کر تے ہوئے فرماتے ہیں کہ

“ جب میں ایم اے کی غرض سے پنجاب یونیورسٹی میں داخل ہوا تو ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب اسلامی فلسفہ میں میرے استاد تھے، وہ ایم اے کے مضمون میں بھی میرے گائیڈ تھے، جب میں ان کی صحبت میں بیٹھا تو مجھے فلسفہ انقلاب کے تصور سے آشنائی ہوئی۔ اسلامی فلسفہ انقلاب اور قرآنی فلسفہ انقلاب کے حوالے سے انہوں نے مجھے کچھ لیکچردیئے کہ میں نے محسوس کیا کہ سوچ کے کچھ گوشے اور کچھ فلسفہ و فکر کے گوشے نئے ہیں جو ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کے ذریعے مجھے ملے جس سے مجھے فکر کی ایک نئی جہت ملی۔

اس کے بعد میں نے عالم اسلام اور مسلمانوں کے حالات کے بارے میں سوچ بچار شروع کردی۔ بالخصوص پاکستان، پاکستانی معاشرے اور عالم اسلام کی زبوں حالی کا مجھے ایک ایسا درد فکر اور پریشانی تھی کہ بسا اوقات میں کئی کئی گھنٹوں تک رویا کرتا تھا۔ میں جب یہ دیکھتا کہ کچھ مسلمان ممالک امریکہ کے بلاک میں بٹے ہوئے ہیں کچھ روس کے بلاک میں بٹے ہوئے ہیں۔ امت مسلمہ اپنی شناخت کھوچکی ہے اور وہ باہمی طور پر غلامی اور محکومی کی زندگی گزار رہی ہے، مسلمانوں کی اپنی عزت نفس نہیں رہی، نظام تعلیم سے جو نوجوان پیدا ہورہے ہیں، وہ بکھر چکے ہیں۔ ان کی سیرت، کردار اور سوچ نہیں ہے۔ مستقبل میں انقلاب کی سوسائٹی میں ان کی پلاننگ کوئی نہیں ہے۔ نئی قیادت اٹھتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ یہ وہ دور تھا جب بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفیٰ چلائی جا رہی تھی۔ وہ مکمل طور پر لادینیت کا دور تھا اسلام کے شعائر کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ دوسری طرف سے فاشزم شروع ہوگئی۔ یہ سارے حالات دیکھ کر مجھے مسلسل مایوسی ہوتی رہی۔ ان چیزوں نے میرے اندر ایک اضطراب پیدا کیا اور مجھے یہ سوچ ملی کہ اسلامی اور قرآنی انقلاب لانے کے لئے فلسفہ اور طریقہ کار کیا ہے۔ یہ ساری سوچ اور تصور مجھے ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی صحبت سے ملا۔ اس کے بعد میرا ایک اپنا سفر اور محنت شروع ہوگئی”.