امام ابو حنیفہ : امام الائمہ فی الحدیث

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search

اصحاب علم و فن کے ہاں امام اعظم امام ابو حنیفہ جیسے اکابر ائمہ کا شمار بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں ہوتا ہے۔ جس طرح قرآن، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک زندہ معجزہ اور خصوصیت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مطہرہ کو محفوظ و مامون بنانے کے لیے حدیث کا شاندار ذخیرہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے ہے، اسی طرح ائمہ مجتہدین اور بالخصوص امام اعظم کا وجود بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ختم نبوت کا زندہ معجزہ ہے۔ تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ اسلامی فقہ کی تدوین اول امام اعظم ابو حنیفہ نے فرمائی بلکہ خود امام شافعی جیسے عظیم مجتہد، محدث نے فرمایا: ”قیامت تک جو شخص بھی دین کی سمجھ حاصل کرنا چاہے گا وہ ابوحنیفہ کے فیضان علم کا محتاج ہوگا۔“ ان پاکان امت کی ہر ادا نرالی اور ہر پہلو اتنا شاندار ہے کہ عظمتیں بھی یہاں رشک کررہی ہیں۔

کہتے ہیں شخصیت جتنی عظیم ہوتی ہے اس کی مخالفت بھی اس قدر شدید ہوتی ہے اور اس کی آزمائش بھی اتنی ہی سخت ہوتی ہے۔ امام ابو حنیفہ کو بھی مخالفت و عداوت اور آزمائش کی سخت ترین بھٹی سے گزرنا پڑا۔ صاحبان عزیمت کی طرح امام صاحب نے بیک وقت دو سطحوں پر صبر و برداشت کی بھاری سلوں کو اپنے سینہ مبارک پر اٹھایا۔ مخالفت کی ایک سطح ”بادشاہت“ کا روایتی حربہ تھا۔ چونکہ امام صاحب کی زندگی میں بنو امیہ کا خاتمہ اور بنو عباس کا آغاز ہوا۔ اس لئے بنو امیہ کے آخری بادشاہ مروان بن محمد اور بنو عباس کے ابوجعفر منصورکے حکم پر باری باری آپ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ بالآخر اس ظلم کی بدترین علامت بادشاہت کے ہاتھوں جیل میں زبردستی زہر پلوانے پر آپ نے جام شہادت نوش کیا۔ بقول شخصے:

جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے بر سر میداں مگر جھکی تو نہیں

آپ سے کوئی اخلاقی جرم صادر نہیں ہوا تھا، نہ آپ نے کسی کا جانی مالی نقصان کیا تھا، آپ کا جرم صرف اور صرف یہ تھا کہ آپ نے مفتی اعظم اور وزیر خزانہ جیسا اعلیٰ حکومتی عہدہ قبول نہ کر کے بادشاہت کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔ یہ تو آپ پر روا رکھا جانے والا جسمانی ظلم تھا جو مزعومہ سیاسی مصلحتوں نے جاری رکھا اور آپ کے وصال کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ لیکن ظلم، ناشکری اور تعصب و عناد کی ایک دوسری صورت بھی تھی جو اس وقت آپ کے معاصر حاسد علماء نے شروع کی اور پھر نسل در نسل متعصب ذہنیت رکھنے والے مذہبی طبقات میں بھی منتقل ہوتی رہی۔ صدیاں گزرنے کے بعد اب بھی مخصوص ”مذہبی“ پس منظر رکھنے والے لوگ آپ کے خلاف حسد، بغض اور مخالفت کا ابلیسی مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گذشتہ کئی صدیوں سے آپ کے خلاف جو پروپیگنڈہ سب سے زیادہ ہورہا ہے وہ آپ کی علم حدیث سے دوری، لاعلمی اور ناقدری کا الزام ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آج بھی پورے عالم اسلام کا اسی (۸۰) فیصد حصہ امام اعظم کے فقہی اصولوں کا مقلد ہے لیکن پھر بھی آپ کو حدیث سے لاعلم کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ نظام قدرت ہے کہ ان مخالفانہ رویوں اور مسلسل متعصبانہ کاوشوں کے باوجود اب بھی ”امام اعظم“ ابوحنیفہ ہی ہیں اور ان شاء اﷲ رہتی دنیا تک ”امام اعظم“ کا اعزاز آپ ہی کے سر سجا رہے گا۔

قرآن و سنت کے صحیح پیغام اور بزرگان دین بالخصوص ائمہ فقہ و حدیث کی ترجمان تحریک منہاج القرآن کے بانی شیخ الاسلام، محقق عصر ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے دیگر علمی محاذوں پر داد شجاعت دینے کے ساتھ ساتھ اس اہم معاملے پر بھی توجہ مرکوز کی۔ امام اعظم کی فقہی خدمات سے ہٹ کر صرف علم حدیث پر تفردات و امتیازات کو اکٹھا کیا اور ان تحقیقات کو کتابی شکل میں لانے سے پہلے علماء و مشائخ کی ایک عظیم الشان کانفرنس برطانیہ میں اور دوسری پاکستان میں منعقد کی۔ حسب روایت حضرت شیخ الاسلام کے ان کانفرنسز کے موقع پر ہونے والے خصوصی خطابات کو کتاب شکل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ امام صاحب کی خدمات فقہ پر بے شمار متقدم و متاخر علماء نے مستقل کتب تصنیف کیں۔ اسی طرح آپ کی علم حدیث میں خدمات کے اعتراف پر بھی ہر دور کے علماء نے قابل قدر علمی کاوشیں مرتب کیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امام صاحب کی خدمات پر احناف سے زیادہ مالکی، شافعی اور حنبلی علماء نے لکھا ہے۔ ان اجل ائمہ میں امام ابو عبد اﷲ احمد بن علی صیمری (متوفی ۴۳۶ھ)، قاضی ابو عمر یوسف بن عبد البر مالکی (۴۶۲ھ)، حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی شافعی (۵۰۵ھ)، امام فخر الدین رازی شافعی (۶۰۶ھ)، امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی (۶۷۶ھ)، حافظ جمال الدین یوسف بن عبد الرحمن مزی شافعی (۷۴۲ھ)، امام شمس الدین محمد بن احمد ذہبی شافعی (۷۴۸ھ)، مجد الدین فیروز آبادی شافعی (۸۱۷ھ)، حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی (۸۵۲ھ)، علامہ یوسف بن عبد الہادی حنبلی (۹۰۹ھ)، امام جلال الدین سیوطی شافعی (۹۱۱ھ)، حافظ محمد بن یوسف صالحی دمشقی شافعی (۹۴۲ھ)، قاضی حسین بن محمد دیار بکری مالکی (۹۶۶ھ)، امام احمد بن حجر ہیتمی مکی شافعی (۹۷۳ھ)، امام عبد الوہاب شعرانی شافعی (۹۷۳ھ) جیسے جلیل القدر لوگوں کے نام شامل ہیں۔ علاوہ ازیں گذشتہ دو تین صدیوں میں بھی عرب و عجم میں امام صاحب پر برابر کام ہوتا رہا۔ لیکن آپ کے علم حدیث پر ایک ایسی ضخیم تحقیقی کتاب کی ضرورت تھی جس میں امام صاحب کی فقہی خدمات کی طرح علم حدیث میں نمایاں کارناموں کا بھرپور احاطہ ہو سکے۔ یہ کام احناف کے ذمے ایک تاریخی قرض تھا اور قدرت نے حضرت شیخ الاسلام کو اس سعادت سے سرفراز کر دیا۔ آپ نے اس کتاب میں موضوع سے متعلق جن علمی مباحث پر منفرد انداز سے گفتگو کی اور اپنے نتائج علمی کو تاریخی حوالوں سے مزین فرمایا ان میں علم الحدیث اور فقہ الحدیث میں فرق، امام اعظم کے حق میں بشارت نبوی کی تحقیق اور امام اعظم کے اخذ علم حدیث کے مراکز شامل ہیں۔ اس کتاب میں مستند تاریخی حوالوں سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ امام ابو حنیفہ اکابر صحابہ، ائمہ اہل بیت نبوی اور اکابر تابعین کے علم حدیث کے وارث ہیں، اور امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابو داؤد، امام نسائی اور امام ابن ماجہ سمیت متعدد ائمہ حدیث کے شیخ الشیوخ ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے تلامذہ کی مرویات کو ایک طرف کر دیا جائے تو صحاح ستہ میں بچتا ہی کچھ نہیں۔ کتاب ہٰذا کے آخر میں ثبوت مقدمہ کے لئے 96 احادیث (احادیات، ثنائیات، ثلاثیات) کو درج کیا گیا ہے جو امام صاحب سے مروی ہیں۔ کتاب کے متنوع موضوعات، ان کی حسن ترتیب اور مستند علمی سرچشموں سے مواد کی فراہمی اس کتاب کی ایسی خصوصیات ہیں جو اسے بلاشبہ تمام معاصر کتب پر فوقیت دے رہی ہیں۔

مزید دیکھیئے

فہرست تصانیف شیخ الاسلام