"کتاب التوحید" کے نسخوں کے درمیان فرق

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search
 
سطر 1: سطر 1:
عقیدہء توحید و رسالت اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہیں جن پرایمان و اسلام کی پوری عمارت کا دار و مدار ہے۔ یہ دونوں دراصل عین یک دگر ہیں۔ فساد اور بگاڑ اس وقت پیدا ہوا جب توحید اور رسالت میں مغایرت پیدا کر دی گئی۔ یہ مغایرت تنقیص رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منتج ہوئی۔ شرک اور بدعت کے تصور کو اتنا اچھالا گیا کہ ہر دوسرا شخص بدعتی اور مشرک قرار پانے لگا۔ داعیان اسلام کی قوتیں جب ان منفی پہلؤوں پر مرتکز ہوئیں تو اس کے دو نقصانات ہوئے: ایک یہ کہ اسلام کی تعلیمات کے فروغ کا دائرہ گیا اور دوسرا یہ کہ باہمی منافرت اور تضادات کے نتیجے میں مسلمان باہم دست و گریباں ہوگئی۔
+
[[تصویر:Kitab-ut-tawheed.jpg|250px|left]]
دوسرا بنیادی نکتہ جو سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ توحید محض الفاظ و معانی کا گورکھ دھندا یا قیل و قال کا معاملہ نہیں بلکہ یہ تو عقیدے کے ساتھ ایک کیفیت اور حال ہے جو انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے۔ یہ تو ایک لذت آشنائی ہے جو انسان کو دو عالم کے خوف و غم سے بے نیاز کر کے بندگی کے اطوار سکھاتی ہے۔ حال میں ڈھلی ہوئی یہی توحید دراصل اولیاء اللہ کا مشرب ہے جس کے باعث وہ استغناء کے بلند مرتبے پر فائز ہو جاتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتی۔ دور زوال میں توحید جب حال کی اس خاص کیفیت سے محروم ہو کر قیل و قال کا موضوع بن گئی تو ”موحدین“ کی طبعیت میں ترشی، کبر و نخوت اور سخت گیری کا غلبہ ہوگیا جس کے مظاہر دنیا بھر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہی رجحانات ہر ملک میں کم و بیش یکساں طور پر اسلام کا چہرہ، محبت و مودت، مروت و احسان، تحمل و بردباری اور برداشت کی بجائے جارحیت، کرختگی اور غیر لچک دار رویوں سے مسخ کر رہے ہیں۔ پھر پورے عالم اسلام میں شرک و بدعت کا غلغلہ اور رد عمل میں ہونے والے مناقشات بذات خود مسلمانوں کے داخلی انتشار اور عدم وحدت کی علامت بن چکا ہے۔ حالاں کہ عالم کفر ادیان و مذاہب، رنگ و نسل اور تاریخ و جغرافیہ کی تقسیم مٹا کر اہل اسلام کے خلاف صف آراء ہو چکا ہے۔
+
عقیدہ توحید و رسالت اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہیں جن پر ایمان و اسلام کی پوری عمارت کا دار و مدار ہے۔ یہ دونوں دراصل عین یک دگر ہیں۔ فساد اور بگاڑ اس وقت پیدا ہوا, جب توحید اور رسالت میں مغایرت پیدا کر دی گئی۔ یہ مغایرت تنقیص رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منتج ہوئی۔ شرک اور بدعت کے تصور کو اتنا اچھالا گیا کہ ہر دوسرا شخص بدعتی اور مشرک قرار پانے لگا۔ داعیان اسلام کی قوتیں جب ان منفی پہلؤوں پر مرتکز ہوئیں تو اس کے دو نقصانات ہوئے: ایک یہ کہ اسلام کی تعلیمات کے فروغ کا دائرہ گیا اور دوسرا یہ کہ باہمی منافرت اور تضادات کے نتیجے میں مسلمان باہم دست و گریباں ہوگئے۔
اس صورت حال کے پیش نظر ضروری تھا کہ ان اعتقادی موضوعات پر خالص علمی پیرائے اور معتدل طرز فکر کے ساتھ روشنی ڈالی جاتی تاکہ حقیقت حال سمجھنے میں عوام و خواص کو مدد ملتی۔ چنانچہ ان اعتقادی فتنوں کی بیخ کنی کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کی مدلل اور گرجدار آواز ابھری جس نے تلخیوں کے موسم ناروا میں شرق تا غرب محبت و مودت کے گلزار آباد کر دیے۔ مضبوط دلائل کے ساتھ شرک اور بدعت کے ”طوفان“ کو نہ صرف روک دیا بلکہ تنقیص رسالت کے بدترین فتنے کو اپنی موت آپ مارنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ کتاب فی الحقیقت اس صدی میں حضرت شیخ الاسلام کا وہ نمایاں تجدیدی کارنامہ ہے جس کے مثبت اثرات آئندہ صدیوں تک مترتب ہوتے رہیں گی۔
 
  
”کتاب التوحید“ حضرت شیخ الاسلام مدظلہ العالی کے خطبات و دروس کا مرتبہ مجموعہ ہے جو آپ نے دراسات القرآن کے عنوان سے منہاج یونیورسٹی کے طلباء کو دیے۔ اولاً یہ ”عقیدہء توحید اور حقیقت شرک“ میں شامل ہوئے۔ یہ کتاب جون 1999ء میں پہلی بار طبع ہوئی اور تقریباً ہر سال اس کا نظرثانی شدہ ایڈیشن چھپتا رہا۔ بعد ازاں منہاج یونیورسٹی کے شعبہ ICIS کے طلباء و طالبات (کے سیشن 2004-05ء) کو دیے گئے انگریزی لیکچرز بھی اس موضوع میں توسیع کا سبب بنے۔ یوں جب ان خطبات و دراسات کو از سر نو مرتب کیا گیا تو کتاب کی ضخامت میں اضافہ ہوگیا اور اسے دو جلدوں میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
+
دوسرا بنیادی نکتہ جو سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے، وہ یہ ہے کہ توحید محض الفاظ و معانی کا گورکھ دھندا یا قیل و قال کا معاملہ نہیں بلکہ یہ تو عقیدے کے ساتھ ایک کیفیت اور حال ہے، جو انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے۔ یہ تو ایک لذت آشنائی ہے، جو انسان کو دوعالم کے خوف و غم سے بے نیاز کر کے بندگی کے اطوار سکھاتی ہے۔ حال میں ڈھلی ہوئی یہی توحید دراصل اولیاء اللہ کا مشرب ہے، جس کے باعث وہ استغناء کے بلند مرتبے پر فائز ہو جاتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتی۔ دور زوال میں توحید جب حال کی اس خاص کیفیت سے محروم ہو کر قیل و قال کا موضوع بن گئی تو ”مؤحدین“ کی طبعیت میں ترشی، کبر و نخوت اور سخت گیری کا غلبہ ہوگیا، جس کے مظاہر دنیا بھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہی رجحانات ہر ملک میں کم و بیش یکساں طور پر اسلام کا چہرہ، محبت و مؤدت، مروت و احسان، تحمل و بردباری اور برداشت کی بجائے جارحیت، کرختگی اور غیرلچکدار رویوں سے مسخ کر رہے ہیں۔ پھر پورے عالم اسلام میں شرک و بدعت کا غلغلہ اور ردعمل میں ہونے والے مناقشات بذات خود مسلمانوں کے داخلی انتشار اور عدم وحدت کی علامت بن چکا ہے۔ حالاں کہ عالم کفر ادیان و مذاہب، رنگ و نسل اور تاریخ و جغرافیہ کی تقسیم مٹا کر اہل اسلام کے خلاف صف آراء ہو چکا ہے۔
  
اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دلیل اور تحمل سے حقائق کو سمجھایا گیا ہے۔ اسلوب بیان کی ندرت، دلائل کی صحت اور موضوعات کی تقسیم میں ابلاغ اور تسہیل کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ اہل اسلام کو اعتقادی مسائل کے حل میں انتہاء پسندی کی بجائے احتیاط، تدبر، میانہ روی اور تحمل کی راہ دکھائی گئی ہے۔ ان شاء اللہ اس کے مطالعہ سے عرب و عجم میں اعتقادی مخاصمت کی شدت میں کمی آئے گی اور توحید کا صحیح تصور سمجھنے میں مدد ملے گی۔ بالخصوص پاک و ہند میں سواد اعظم کے دو گروہوں کے باہمی اختلافات کی خلیج کو ختم کیے جانے کی طرف پیش رفت ہو سکے گی۔
+
اس صورتحال کے پیش نظر ضروری تھا کہ ان اعتقادی موضوعات پر خالص علمی پیرائے اور معتدل طرز فکر کے ساتھ روشنی ڈالی جاتی تاکہ حقیقت حال سمجھنے میں عوام و خواص کو مدد ملتی۔ چنانچہ ان اعتقادی فتنوں کی بیخ کنی کے لیے [[شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری]] مدظلہ العالی کی مدلل اور گرجدار آواز ابھری، جس نے تلخیوں کے موسم ناروا میں شرق تا غرب محبت و مودت کے گلزار آباد کر دیے۔ مضبوط دلائل کے ساتھ شرک اور بدعت کے ”طوفان“ کو نہ صرف روک دیا بلکہ تنقیص رسالت کے بدترین فتنے کو اپنی موت آپ مارنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ کتاب فی الحقیقت اس صدی میں حضرت شیخ الاسلام کا وہ نمایاں تجدیدی کارنامہ ہے جس کے مثبت اثرات آئندہ صدیوں تک مترتب ہوتے رہیں گے۔
 +
 
 +
”کتاب التوحید“ حضرت شیخ الاسلام مدظلہ العالی کے خطبات و دروس کا مرتبہ مجموعہ ہے، جو آپ نے [[دراسات القرآن]] کے عنوان سے [[منہاج یونیورسٹی]] کے طلباء کو دیے۔ اولاً یہ ”عقیدہ توحید اور حقیقت شرک“ میں شامل ہوئے۔ یہ کتاب جون [[1999ء]] میں پہلی بار طبع ہوئی اور تقریباً ہر سال اس کا نظرثانی شدہ ایڈیشن چھپتا رہا۔ بعد ازاں منہاج یونیورسٹی کے شعبہ [[ICIS]] کے طلباء و طالبات (کے سیشن 2004-05ء) کو دیے گئے انگریزی لیکچرز بھی اس موضوع میں توسیع کا سبب بنے۔ یوں جب ان خطبات و دراسات کو از سر نو مرتب کیا گیا تو کتاب کی ضخامت میں اضافہ ہوگیا اور اسے دو جلدوں میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
 +
 
 +
اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دلیل اور تحمل سے حقائق کو سمجھایا گیا ہے۔ اسلوب بیان کی ندرت، دلائل کی صحت اور موضوعات کی تقسیم میں ابلاغ اور تسہیل کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اہل اسلام کو اعتقادی مسائل کے حل میں انتہاء پسندی کی بجائے احتیاط، تدبر، میانہ روی اور تحمل کی راہ دکھائی گئی ہے۔ ان شاء اللہ اس کے مطالعہ سے عرب و عجم میں اعتقادی مخاصمت کی شدت میں کمی آئے گی اور توحید کا صحیح تصور سمجھنے میں مدد ملے گی۔ بالخصوص پاک و ہند میں سواد اعظم کے دو گروہوں کے باہمی اختلافات کی خلیج کو ختم کیے جانے کی طرف پیش رفت ہو سکے گی۔
  
 
[[زمرہ:تصانیف]]
 
[[زمرہ:تصانیف]]

تجدید بمطابق 08:55، 30 اپريل 2009ء

Kitab-ut-tawheed.jpg

عقیدہ توحید و رسالت اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہیں جن پر ایمان و اسلام کی پوری عمارت کا دار و مدار ہے۔ یہ دونوں دراصل عین یک دگر ہیں۔ فساد اور بگاڑ اس وقت پیدا ہوا, جب توحید اور رسالت میں مغایرت پیدا کر دی گئی۔ یہ مغایرت تنقیص رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منتج ہوئی۔ شرک اور بدعت کے تصور کو اتنا اچھالا گیا کہ ہر دوسرا شخص بدعتی اور مشرک قرار پانے لگا۔ داعیان اسلام کی قوتیں جب ان منفی پہلؤوں پر مرتکز ہوئیں تو اس کے دو نقصانات ہوئے: ایک یہ کہ اسلام کی تعلیمات کے فروغ کا دائرہ گیا اور دوسرا یہ کہ باہمی منافرت اور تضادات کے نتیجے میں مسلمان باہم دست و گریباں ہوگئے۔

دوسرا بنیادی نکتہ جو سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے، وہ یہ ہے کہ توحید محض الفاظ و معانی کا گورکھ دھندا یا قیل و قال کا معاملہ نہیں بلکہ یہ تو عقیدے کے ساتھ ایک کیفیت اور حال ہے، جو انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے۔ یہ تو ایک لذت آشنائی ہے، جو انسان کو دوعالم کے خوف و غم سے بے نیاز کر کے بندگی کے اطوار سکھاتی ہے۔ حال میں ڈھلی ہوئی یہی توحید دراصل اولیاء اللہ کا مشرب ہے، جس کے باعث وہ استغناء کے بلند مرتبے پر فائز ہو جاتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتی۔ دور زوال میں توحید جب حال کی اس خاص کیفیت سے محروم ہو کر قیل و قال کا موضوع بن گئی تو ”مؤحدین“ کی طبعیت میں ترشی، کبر و نخوت اور سخت گیری کا غلبہ ہوگیا، جس کے مظاہر دنیا بھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہی رجحانات ہر ملک میں کم و بیش یکساں طور پر اسلام کا چہرہ، محبت و مؤدت، مروت و احسان، تحمل و بردباری اور برداشت کی بجائے جارحیت، کرختگی اور غیرلچکدار رویوں سے مسخ کر رہے ہیں۔ پھر پورے عالم اسلام میں شرک و بدعت کا غلغلہ اور ردعمل میں ہونے والے مناقشات بذات خود مسلمانوں کے داخلی انتشار اور عدم وحدت کی علامت بن چکا ہے۔ حالاں کہ عالم کفر ادیان و مذاہب، رنگ و نسل اور تاریخ و جغرافیہ کی تقسیم مٹا کر اہل اسلام کے خلاف صف آراء ہو چکا ہے۔

اس صورتحال کے پیش نظر ضروری تھا کہ ان اعتقادی موضوعات پر خالص علمی پیرائے اور معتدل طرز فکر کے ساتھ روشنی ڈالی جاتی تاکہ حقیقت حال سمجھنے میں عوام و خواص کو مدد ملتی۔ چنانچہ ان اعتقادی فتنوں کی بیخ کنی کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کی مدلل اور گرجدار آواز ابھری، جس نے تلخیوں کے موسم ناروا میں شرق تا غرب محبت و مودت کے گلزار آباد کر دیے۔ مضبوط دلائل کے ساتھ شرک اور بدعت کے ”طوفان“ کو نہ صرف روک دیا بلکہ تنقیص رسالت کے بدترین فتنے کو اپنی موت آپ مارنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ کتاب فی الحقیقت اس صدی میں حضرت شیخ الاسلام کا وہ نمایاں تجدیدی کارنامہ ہے جس کے مثبت اثرات آئندہ صدیوں تک مترتب ہوتے رہیں گے۔

”کتاب التوحید“ حضرت شیخ الاسلام مدظلہ العالی کے خطبات و دروس کا مرتبہ مجموعہ ہے، جو آپ نے دراسات القرآن کے عنوان سے منہاج یونیورسٹی کے طلباء کو دیے۔ اولاً یہ ”عقیدہ توحید اور حقیقت شرک“ میں شامل ہوئے۔ یہ کتاب جون 1999ء میں پہلی بار طبع ہوئی اور تقریباً ہر سال اس کا نظرثانی شدہ ایڈیشن چھپتا رہا۔ بعد ازاں منہاج یونیورسٹی کے شعبہ ICIS کے طلباء و طالبات (کے سیشن 2004-05ء) کو دیے گئے انگریزی لیکچرز بھی اس موضوع میں توسیع کا سبب بنے۔ یوں جب ان خطبات و دراسات کو از سر نو مرتب کیا گیا تو کتاب کی ضخامت میں اضافہ ہوگیا اور اسے دو جلدوں میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دلیل اور تحمل سے حقائق کو سمجھایا گیا ہے۔ اسلوب بیان کی ندرت، دلائل کی صحت اور موضوعات کی تقسیم میں ابلاغ اور تسہیل کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اہل اسلام کو اعتقادی مسائل کے حل میں انتہاء پسندی کی بجائے احتیاط، تدبر، میانہ روی اور تحمل کی راہ دکھائی گئی ہے۔ ان شاء اللہ اس کے مطالعہ سے عرب و عجم میں اعتقادی مخاصمت کی شدت میں کمی آئے گی اور توحید کا صحیح تصور سمجھنے میں مدد ملے گی۔ بالخصوص پاک و ہند میں سواد اعظم کے دو گروہوں کے باہمی اختلافات کی خلیج کو ختم کیے جانے کی طرف پیش رفت ہو سکے گی۔