"کتاب البدعۃ" کے نسخوں کے درمیان فرق

منہاج انسائیکلوپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search
 
م (تصور کی ر)
سطر 3: سطر 3:
 
”کتاب البدعۃ“ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے تصور بدعت پر وارد ہونے والے تمام اعتراضات کا جواب کتاب و سنت، آثار صحابہ اور اقوال ائمہ و محدثین کی روشنی میں ایسےمحققانہ اور مجتہدانہ انداز میں دیا ہے کہ طویل مدت سےتصور بدعت پر پڑی ہوئی ابہام و تشکیک کی گرد ہمیشہ کے لیے چھٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ”کتاب البدعۃ“ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کےان خطبات و دروس کی محققہ و مرتبہ صورت ہے جو آپ نے مختلف علمی و فکری مجالس میں ارشاد فرمائے۔
 
”کتاب البدعۃ“ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے تصور بدعت پر وارد ہونے والے تمام اعتراضات کا جواب کتاب و سنت، آثار صحابہ اور اقوال ائمہ و محدثین کی روشنی میں ایسےمحققانہ اور مجتہدانہ انداز میں دیا ہے کہ طویل مدت سےتصور بدعت پر پڑی ہوئی ابہام و تشکیک کی گرد ہمیشہ کے لیے چھٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ”کتاب البدعۃ“ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کےان خطبات و دروس کی محققہ و مرتبہ صورت ہے جو آپ نے مختلف علمی و فکری مجالس میں ارشاد فرمائے۔
  
اس کتاب میں قرآن و حدیث، آثار صحابہ اور اکابر ائمہ و محدثین کے دلائل کی روشنی میں بدعت کے صحیح تصو کو واضح کیا گیا ہے اور مستند دلائل و براہین سے ثابت کیا گیا ہے کہ ہر بدعت ناجائز اور حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہ بدعت ناجائز ہوتی ہے جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود نہ ہو اور وہ شریعت کے کسی حکم کے واضح طور پر مخالف اور متضاد ہو۔ لیکن اس کےبرعکس جو نیا کام احکام شریعت کےخلاف نہ ہو بلکہ ایسےامور میں داخل ہو جو اصلًا حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرےمیں آتے ہیں تو ایسےجملہ نئے کام محض لغوی اعتبار سے ”بدعت“ کہلائیں گے کیونکہ ”بدعت“ کا لغوی معنی ہی ”نیا کام“ ہے، ورنہ وہ شرعًا نہ تو بدعت ہوں گے اور نہ ہی مذموم اور نہ باعث ضلالت ہوں گے، وہ مبنی بر خیر ”امور حسنہ“ تصور ہوں گے۔
+
اس کتاب میں قرآن و حدیث، آثار صحابہ اور اکابر ائمہ و محدثین کے دلائل کی روشنی میں بدعت کے صحیح تصور کو واضح کیا گیا ہے اور مستند دلائل و براہین سے ثابت کیا گیا ہے کہ ہر بدعت ناجائز اور حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہ بدعت ناجائز ہوتی ہے جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود نہ ہو اور وہ شریعت کے کسی حکم کے واضح طور پر مخالف اور متضاد ہو۔ لیکن اس کےبرعکس جو نیا کام احکام شریعت کےخلاف نہ ہو بلکہ ایسےامور میں داخل ہو جو اصلًا حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرےمیں آتے ہیں تو ایسےجملہ نئے کام محض لغوی اعتبار سے ”بدعت“ کہلائیں گے کیونکہ ”بدعت“ کا لغوی معنی ہی ”نیا کام“ ہے، ورنہ وہ شرعًا نہ تو بدعت ہوں گے اور نہ ہی مذموم اور نہ باعث ضلالت ہوں گے، وہ مبنی بر خیر ”امور حسنہ“ تصور ہوں گے۔
  
 
[[زمرہ:تصانیف]]
 
[[زمرہ:تصانیف]]

تجدید بمطابق 20:33، 9 مئی 2009ء

ہمارے ہاں عام طور پر ایک خاص نقطہءنظر اور مذہبی پس منظر رکھنے والے طبقے کی طرف سے”شرک“ اور ”بدعت“ کی دو اصطلاحات کو بہت زیادہ، بے محل اور غلط طریقےسےاستعمال کیا جاتا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے ناجائز، غیر مستحسن، غیر ثابت، مکروہ اور حرام، ہر قسم کےامور پر لفظ شرک اور بدعت کو منطبق کر کے امت کی بھاری اکثریت کو مشرک، بدعتی اور گمراہ قرار دے دیا جاتا ہے اور وہ آیات مقدسہ اور احادیث مبارکہ جو کفار و مشرکین کے بارے میں نازل ہوئیں انہیں بڑی بے باکی سےامت مسلمہ پر چسپاں کر دیا جاتا ہے جو کہ ایک نہایت ہی ظالمانہ اور جاہلانہ طرز عمل ہے۔

”کتاب البدعۃ“ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے تصور بدعت پر وارد ہونے والے تمام اعتراضات کا جواب کتاب و سنت، آثار صحابہ اور اقوال ائمہ و محدثین کی روشنی میں ایسےمحققانہ اور مجتہدانہ انداز میں دیا ہے کہ طویل مدت سےتصور بدعت پر پڑی ہوئی ابہام و تشکیک کی گرد ہمیشہ کے لیے چھٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ”کتاب البدعۃ“ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کےان خطبات و دروس کی محققہ و مرتبہ صورت ہے جو آپ نے مختلف علمی و فکری مجالس میں ارشاد فرمائے۔

اس کتاب میں قرآن و حدیث، آثار صحابہ اور اکابر ائمہ و محدثین کے دلائل کی روشنی میں بدعت کے صحیح تصور کو واضح کیا گیا ہے اور مستند دلائل و براہین سے ثابت کیا گیا ہے کہ ہر بدعت ناجائز اور حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہ بدعت ناجائز ہوتی ہے جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود نہ ہو اور وہ شریعت کے کسی حکم کے واضح طور پر مخالف اور متضاد ہو۔ لیکن اس کےبرعکس جو نیا کام احکام شریعت کےخلاف نہ ہو بلکہ ایسےامور میں داخل ہو جو اصلًا حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرےمیں آتے ہیں تو ایسےجملہ نئے کام محض لغوی اعتبار سے ”بدعت“ کہلائیں گے کیونکہ ”بدعت“ کا لغوی معنی ہی ”نیا کام“ ہے، ورنہ وہ شرعًا نہ تو بدعت ہوں گے اور نہ ہی مذموم اور نہ باعث ضلالت ہوں گے، وہ مبنی بر خیر ”امور حسنہ“ تصور ہوں گے۔